متفرق اعتراضات ۔ ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا
” جھوٹ نمبر7“اس عنوان کے نیچے معترض نے ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر21صفحہ 359سے چند فقرات درج کئے ہیں۔ وہ فقرات یہ ہیں کہ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں۔
”ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا ۔سو یہ تمام علامات بھی اس زمانے میں پوری ہوگئیں۔“
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔جلد نمبر21صفحہ359)
یہ اقتباس درج کر کے مضمون نگار لکھتے ہیں۔”قادیانیو! ایک حدیث پیش کر دیں جس میں آنحضرت نے چودھویں صدی کا ذکر فرمایا ہو۔یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں “
جواب:۔
انہوں نے اپنے اس اعتراض میں مسیح موعود کے صدی کے سر پر ہونے اور اس کے مجدد ہونے کے جملے پر اعتراض نہیں کیا صرف چودھویں صدی کے الفاظ پر معترض کو اعتراض ہے ۔ناظرین! اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک اور احادیث میں چودھویں صدی کا لفظ موجود نہیں مگر یہ کہنا کہ قرآن پاک اور احادیث میں چودھویں صدی میں اس کے ظاہر ہونے کا تذکرہ نہیں یہ بات صریحاً باطل ہے۔
چنانچہ یہی اقتباس جو معترض نے صفحہ 359سے پیش کیا ہے اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ359,358اور اس کے بعد حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ یہی مضمون بیان فرما رہے ہیں اور اس کا خلاصہ اس فقرے میں ہے جو فقرہ معترض نے اعتراض کی خاطر اپنے مضمون میں درج کیا ۔
بات یہ ہے حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ اس فقرے کے سیاق وسباق میں یہ تحریر فرما رہے ہیں کہ قرآن پاک اور احادیث میں جو پیشگوئیاں بیان کی گئیں مسیح موعود کے ظہور کے زمانے کی ۔وہ پیشگوئیاں اور علامات پوری ہو چکی ہیں۔ ان پیشگوئیوں نے اور ظہور مسیح کے زمانے کی علامات نے پورا ہوکر ہمارے سامنے یہ نتیجہ پیش فرمایا کہ چودھویں صدی کا زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ چند مثالیں بانیٴ جماعت احمدیہ نے اس فقرہ کے سیاق وسباق میں درج کی ہیں ان کا ذکر کرنے سے پہلے مشکوٰة کے حوالے سے ایک حدیث نبوی درج کرنامناسب ہے ۔یہ مرقاة شرح مشکوٰة کی آٹھویں جلد میں کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ کی فصل ثالث کی پہلی حدیث یہ ہے جس کا نمبر 5460ہے۔
عَنْ اَبِیْ قَتَادَةَ حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ رسول پاک ﷺنے فرمایا ۔اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ۔قیامت کی بڑی بڑی علامات دوسوسال کے بعد ظہور پذیر ہوں گی ۔وہ قیامت کی علامات کبریٰ کون سی ہیں ۔اس کی تشریح میں نیچے حضرت ملا علی قاری ؒ مرقاة المفاتیح کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ الفصل الثالث حاشیہ میں بیان کرتے ہیں۔ اَیْ یعنی آیَاتُ السَّاعَةِ وَعَلَامَاتُ الْقِیَامَةِ کہ قیامت کی نشانیاں تَظْھَرُ بِاِعْتِبَارِ اِبْتِدَائِھَا ظُھُوْراً کَامِلًا کہ قیامت کی نشانیاں یوں تو ابتداء سے ظہور پذیر ہورہی ہیں ۔مگر ظہور کے اعتبار سے جب کامل ظہور ہوگا وہ کب ہوگا ۔بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ دوسو سال کے بعد۔ کیونکہ چھوٹی چھوٹی علامات تو ابتداء سے ہی ظاہر ہورہی تھیں اس لئے وہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں قیامت کی نشانیوں سے مراد قیامت کی علامات کبریٰ ہیں کہ وہ دو سو سال کے بعد آئیں گی ۔آگے لکھتے ہیں علماء نے دوسو سال کی کیا تشریح کی۔ کہتے ہیں اَیْ مِنَ الْھِجْرَةِ کہ ہجرت سے دوسو سال بعداَوْمِنْ دَوْلَۃِ الْاِسْلَامِ یا اسلامی حکومت قائم ہونے سے دوسو سال بعد اَوْمِنْ وَفَاتِہ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ یا رسول پاک ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد ۔
صاحبو!یہ تینوں تشریحات درست نہیں کیونکہ یہ ابتداء کا زمانہ ۔وہ تو خیر القرون کا زمانہ رسول پاک ﷺنے بیان فرمایا وہ قیامت کی علامات کبریٰ کا زمانہ نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ قیامت کی علامات کبریٰ وہ تو دنیا کے آخری زمانے میں آئیں گی جو قرب قیامت کا زمانہ ہوگا ۔اس لئے آگے ملا علی قاری رحمۃاللہ علیہ بیان فرماتے ہیں وَیَحْتَمِلُ ممکن ہے کہ اَنْ یَّکُوْنَ الَّامَ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِ کہ اَلْمِائَتَیْنِ میں جو لام ہے یہ عھدکا ہے اَیْ بَعْدَ الْمِائَتَیْنِ بَعْدَ الْاَلْفِ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہزار سال کا زمانہ گزرنے کے بعد جو دو صدیاں گزریں گی ان کے بعدقیامت کی علامات کبریٰ کا ظہور ہوگا یعنی بارھویں صدی کے بعد تیرھویں صدی میں ۔اگلا جملہ غور کے قابل ہے۔ فرماتے ہیں وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدَیِّ بارھویں صدی ہجری کے گزرنے کے بعد جو زمانہ ہوگا یعنی تیرھویں صدی ہجری کا زمانہ ھُوَوَقْتُ ظُھُوْرِالْمَھْدِیِّ وہ ظہورمہدی کا وقت ہے کیونکہ ظہور مہدی قیامت کی علامات کبریٰ میں بیان کیا گیا ۔وَخُرُوْجُ الدَّجَّالِ اور دجال کا خروج وہ تیرھویں صدی میں ہوگاوَنُزُوْلِ عِیْسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامِ اور نزول عیسیٰ تیرھویں صدی میں ہوگا وَتَتَابُعُ الْاٰیَاتِ اور قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں کا یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہونا وہ تیرھویں صدی میں ہوگا۔ کہتے ہیں جیسے مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا ۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وَخُرُوْجِ دَابَةِالْاَرْضِ اور دَابَۃ الْاَرْضِ کا ظاہر ہونا وَظُہُوْرِ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ وَاَمْثَالِھَا اور یاجوج ماجوج اور اس جیسی دیگر اشیاء کا ظہور ہونا ۔تو صاحبو!آج سے سینکڑوں سال پہلے علماء اس بات کو تسلیم کر چکے کہ حضرت رسول پاک ﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق قیامت کی علامات کبریٰ جن میں ظہور یاجوج ماجوج،خروج دجال،ظہور مہدی،نزول عیسیٰ ۔یہ تیرھویں صدی میں ہوگا ۔
یہی بات حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ بیان فرما رہے ہیں ۔چنانچہ صاحبو! اس بات پر غور فرمائیں حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ 14/شوال 1250ہجری کو پیدا ہوئے جو تیرھویں صدی کا عین وسط ہے۔ 1290ہجری میں آپ ؑنے اس بات کا دعویٰ فرمایا کہ مجھ سے خدا ہمکلام ہوتا ہے۔مجھے خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی تجدید کے لئے مامور فرمایا ہے اور1326ہجری میں یعنی چودھویں صدی کے چھبیسویں سال آپؑ کا وصال ہوا۔ یہی مضمون مشکوٰة کی اردو زبان میں شرح ” مظاہر حق“ کی جلد پنجم میں ہے ۔وہ لکھتے ہیں حضور ﷺ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ جن چیزوں اور جن باتوں کو قیامت کی علامتیں اور نشانیاں قرار دیا گیا ہے ان کا ظاہر ہونا اور پیش آنا پورے دو سو برس کے بعدسے شروع ہوجائے گا ۔ رہی یہ بات کہ یہ دو سو برس کس وقت سے مراد تھے۔ہجرت نبوی کے وقت سے یا اسلام کی روشنی کے ظہور کے وقت سے یا وفات نبوی ﷺکے وقت سے دوسو برس کی مدت مراد تھی اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ لفظ اَلْمِائَتَیْنِ پر حرف لام عہد کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی علامتیں دو سوبرس کی اس مدت کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گی جس کی ابتداء ہزار سال کے بعد سے ہوگی ۔مزید وضاحت کے لئے یوں کہا جا سکتا ہے کہ دو سو برس سے گویا بارہ سو برس مراد ہیں اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب قیامت کی چھوٹی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہوں گی۔اور بڑی نشانیاں ۔جیسے حضرت مہدی کے ظہور ،حضرت عیسیٰ کے نزول ،دجال کے نکلنے اور دوسری پے درپے علامتوں کے ظاہر ہونے یعنی سورج کے مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونے،دابۃ الارض کے نکلنے اور یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے وغیرہ وغیرہ کا وقت قریب تر آجائے گا اور اہل علم محسوس کرنے لگیں گے کہ دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ گئی ہے۔
صاحبو! قرآن پاک نے اس بات کا تذکرہ خلاصۃً فرمایا ۔سورہ السجدہ آیت نمبر6میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُدَبِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ۔اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو آسمان سے زمین پرقائم کرتا چلاجائے گاثُمَّ پھر۔یہ پھر کا لفظ کیا بتاتا ہے ۔پہلا کام ختم دوسرا شروع ہوگا ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ پھر وہی حکم جو زمین پر قائم ہوتا چلا جارہا تھا یہ خدا کی طرف چڑھ جائے گافرمایا کتنا عرصہ چڑھا رہے گا ۔کتنا زمانہ۔اس کی مقدار انسانی گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ایک ہزار سال سے زیادہ حکم شریعت آسمان پر نہیں چڑھے گا اس آیت نے تاریخ اسلام کے تین دور بیان کئے ۔
فرمایا اسلام کی ترقی کا زمانہ اس کے بعد ایک ہزار سال کمزوری کا زمانہ اور ایک ہزار سال کمزوری کا زمانہ گزرنے کے بعد کمزوری نہیں۔تو جب کمزوری نہیں تو کیا ہوگاترقی کا زمانہ ۔تمام امت مسلمہ اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ کمزوری کے بعد اسلام کی دوبارہ شوکت اور ترقی مسیح موعود کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ پہلی ترقی کا دور کتنا ہے تو بالکل حسابی طرز پر ظہور مسیح موعود کا زمانہ متعین ہوجاتا ہے ۔سنی، شیعہ احادیث اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ حضرت رسول پاک ﷺنے فرمایا ۔ میری امت کا بہترین زمانہ پہلی تین صدیاں ہیں ۔اب آیت قرآنی کی طرف رجوع فرمائیے گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ حکم شریعت کو آسمان سے زمین پر قائم کرتا چلا جائے گا۔ رسول پاک ﷺنے اس کا زمانہ تین صدیاں بتایا ۔پھر آیت نے بتایا کہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ ہوگا ۔تین سو میں ہزار جمع کریں تیرہ سو بنے گا اور فرمایا ہزار سال گزرنے کے بعد کمزوری نہیں ترقی ہوگی اور ترقی مسیح موعود کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔ صاحبو! اس بات پر غور فرمائیں تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد جو زمانہ ہوگا وہ اسلام کی ترقی کا زمانہ یعنی ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہوگا۔تو تیرھویں صدی گزرنے کے بعد کون سی صدی آئے گی چودھویں۔
جس سیاق وسباق میں سے یہ فقرہ معترض نے پیش کیا حضرت بانیٴ جماعت نے وہاں بعض علامتیں بیان فرمائی ہیں صفحہ358پرحضور فرماتے ہیں۔اوریہ فقرہ معترض نے صفحہ359سے اچکا ہے۔ صفحہ358پر حضور فرماتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق دو مرتبہ ملک میں کسوف وخسوف ہوگیا جو مسیح موعود کے ظہور کی نشانی تھی۔اس کی تفصیل کیا ہے۔ میں قارئین کو اس کی تفصیل اشارةً بتا دیتا ہوں ۔جیساکہ ابھی ہم نے معلوم کیا کہ مسیح موعود ومہدی معہود کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے۔قرآن پاک نے ایک سورة کانام ہی سورة القیامۃ رکھا۔اللہ تعالیٰ پہ قربان کیسے ہمیں سمجھانے کے لئے ہمیں سورة مہیا فرما دی ۔اس سورة القیامۃآیت 7 تا 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یَسْئَلُ انسان سوال کرتا ہے اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ قیامت کا دن کب آئے گا ۔یہ نہیں فرمایا کہ کیسے آئے گا ۔فرمایا کب آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے ۔فَاِذَابَرِقَ الْبَصَرُ جب انسانی آنکھ حیران ہوجائے گی۔ایسے عجیب وغریب حالات رونما ہوں گے ۔ وَخَسَفَ الْقَمَرُ چاند کو گرہن لگے گاوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ اور سورج اور چاند اکٹھے ہوجائیں گے۔کیا مطلب۔سورج اور چاندکو گرہن لگے گا یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرْ یہ حالات دیکھ کر انسان کہے گا اب کہاں بھاگ کر جانا ہے ۔ اس میں قرب قیامت کی کیا نشانی بتائی گئی ۔چاند کو گرہن لگے گا ،سورج کو گرہن لگے گا۔صاحبو! ایک سال کے اندر چار مرتبہ چاند کو گرہن لگا کرتا ہے ۔کس مہینے میں لگے گا ،کس تاریخ کو لگے گا۔قرآن پاک کی آیات نے اس بات کو بیان نہیں فرمایا تو یقیناحضرت رسول پاک ﷺ جن کو خدا تعالیٰ نے قرآن پاک کے مضامین کی تفسیر کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ان سے ہم پوچھتے ہیں۔ امام دارقطنی نے اپنی سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰہ الخسوف والکسوف وھئیتھامیں حضرت امام باقرؒ کی زبان سے پیشگوئی درج فرمائی۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے یہ کتاب تصنیف ہوئی ۔وہ بیان کرتے ہیں اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا آیَتَیْنِ ہمارے مہدی کی سچائی کے اظہار کے لئے دو نشان ظاہر ہوں گے ۔ یہ فقرہ کہ ’ہمارے مہدی‘ بتاتا ہے کہ بہت سے لوگ مہدی ہونے کے دعویدار ہوں گے لیکن جو مہدی ہمارا نہیں ہوگا اس کے زمانے میں اس کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوں گے۔صرف سچے مہدی کے دعوے کے زمانے میں اس کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ دو نشان ظاہر ہوں گے ۔فرمایا لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جب سے زمین وآسمان کی پیدائش ہوئی یہ دو نشان کسی مہدی کے دعوے کی سچائی کے اظہار کے لئے رونما ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہ نہیں فرمایا کہ چاند اور سورج کو گرہن پہلے نہیں لگا ۔فرمایا نشان ظاہر نہیں ہوا ۔ہر گرہن نشان نہیں ہوتا ۔اس کی تفصیل بیان کی فرمایا یَنْخَسِفُ الْقَمَرُلِاَوَّّلِ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ۔ رمضان کا مہینہ ہوگا ۔چاند کو پہلی رات کو گرہن لگے گا۔دوستو !زمین گول ہے۔چاند کو گرہن کیسے لگتا ہے۔جب چاند گردش کرتے کرتے ایسے نقطے پر آجاتا ہے کہ چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہوجاتی ہے ۔زمین سورج کی شعاعوں کو روک دیتی ہے اور چاند پر نہیں پڑتیں تو چاند کا ایک حصہ تاریک ہوجاتا ہے ۔اس کو کہتے ہیں کہ چاند کو گرہن لگ گیا ۔چاند سورج اور زمین کی گردش کی رفتار خدا نے ایسی مقرر کی ہے کہ ہمیشہ یا چاند کی تیرھویں رات کو یا چاند کی چودھویں رات کو یا چاند کی پندرھویں رات کو یہ تینوں سیارے ایسی ترتیب سے آگے پیچھے ہوتے ہیں کہ چاند کو گرہن لگا کرتا ہے ۔اگر چاند کی بارہ یا گیارہ تاریخ ہو تویہ سیارے ایک قطار میں نہیں ہوں گے۔چاند کو گرہن نہیں لگے گا۔اگر چاند کی سولہ ،سترہ ، اٹھارہ تاریخ ہو۔یہ تینوں سیارے ایک لائن میں نہیں ہوں گے ۔چاند کو گرہن نہیں لگے گا ۔تو فرمایا لِاَوَّلِ لَیْلَةٍجو گرہن کی راتیں ہیں ان میں سے پہلی رات کو چاند کو گرہن لگے گا یعنی تیرہ رمضان کو۔آگے چلئے! مہینہ چل رہا ہے۔ فرمایا وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی الْنِّصْفِ مِنْہُ اور رمضان کے مہینے میں درمیانی تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا ۔سورج کو گرہن کیسے لگتا ہے ۔جب زمین اور سورج کے درمیان گردش کرتے کرتے چاند حائل ہوجائے تو سورج کی شعاعوں کوزمین پرپڑنے سے چاند روک دیتا ہے ۔سورج کی شعاعیں زمین پر نہیں پہنچتیں توکہتے ہیں سورج کو گرہن لگ گیا۔ اور جو گردش خدا تعالیٰ نے تینوں سیاروں کی مقرر فرمائی ۔ان کی رفتار کے مطابق ہمیشہ چاند کی ستائیس،اٹھائیس ، انتیس تاریخ میں سے کسی تاریخ کو یہ لائن سیارے ایک میں ہوتے ہیں ۔تو درمیانی تاریخ کون سی بنی ۔اٹھائیس رمضان۔ عجیب بات ہے چاند کو اگر آدھی رات کو گرہن لگے توکون دیکھے گا ۔ سورج کو گرہن لگے طلوع آفتاب کے آدھے گھنٹے کے بعدجبکہ اکثریت سو رہی ہوتی ہے توکون دیکھے گا ۔خدا کی قدرت پہ قربان جائیں ۔چاند کو خدا نے گرہن لگایا عشاء کے وقت جب کہ اکثریت جاگ رہی ہوتی ہے سورج کو گرہن لگایا خدا تعالیٰ نے صبح9بجے سے11بجے تک جبکہ اکثریت جاگ رہی ہوتی ہے ۔زمین گول ہے ۔1894ء میں خدا تعالیٰ نے زمین کی اِس طرف گرہن لگایا زمین کی گولائی حائل ہوگئی اوراُس طرف کے لوگ اس کو دیکھ نہ سکے ۔اگلے سال خدا تعالیٰ نے زمین کی دوسری جانب امریکہ کے علاقے میں گرہن لگایا ۔
سو دوستو! 1894ء اور1895ء میں خدا تعالیٰ نے اس آسمانی نشان کو پورا کر کے بتا دیا کہ یہ زمانہ ظہور مہدی کا زمانہ ہے۔ اگر یہ مہدی کا دعویدار برحق نہیں تو پھرآئندہ کوئی سچا مہدی نہیں آئے گا ۔کیونکہ اس حدیث میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے فرمایا لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَاَلْاَرْضِ۔جب سے زمین وآسمان کی پیدائش ہوئی کسی جھوٹے مہدی کی سچائی کے اظہار کے لئے یہ نشان ظاہر نہیں ہوا ہوگا۔ اسی سیاق وسباق میں اگلی نشانی بانیٴ جماعت احمدیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔سورة التکویر میں قرب قیامت کی علامات بیان ہورہی ہیں ۔ایک ان میں سے یہ بیان کی گئی وَاِذَ الْعِشَارُعُطِّلَتْ (التکویر:4) وہ زمانہ ایسا ہوگا دس ماہ کی حاملہ اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا۔ارے بھئی دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں تو ڈبل قیمت کی حقدار بن جاتی ہیں۔ اس کو کوئی کب چھوڑے گا ۔جب اس سے بہتر چیز مل جائے گی۔ حدیث پاک میں حضرت رسول پاک ﷺنے اس کی وضاحت فرمائی۔ مسلم کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ میں فرمایاوَلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُ مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہوگا نوجوان تیز رفتار اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گافَلَا یُسْعیٰ عَلَیْھَا ان پر بیٹھ کر بھاگنے دوڑنے کا تیز رفتاری کاکام نہیں لیا جائے گا ۔یہ صورت حال کب پیدا ہوگی ۔ جب ایسی سواریاں ایجاد ہوجائیں جو تیز رفتاری کے اعتبار سے،سہولتوں کے اعتبار سے اونٹنیوں سے زیادہ مفید اور نفع رساں ہوں ۔ سو صاحبو!ایسی تیز رفتار سواریاں خدا تعالیٰ نے تیرھویں صدی میں ایجاد کر کے اس بات کی گواہی دے دی کہ یہی زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہے ۔اسی سیاق وسباق میں حضور نے اور بھی باتیں بیان فرمائیں۔ان کی بجائے ایک دو اور باتیں عرض ہیں جو اپنی باقی کتابوں میں آ پ نے بیان فرمائیں۔
بخاری شریف کتاب بدء الحق باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میں حدیث ہے حضرت رسول پاک ﷺفرماتے ہیں مسیح موعود آئے گا یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ صلیب توڑے گا ۔یہ لفظ توڑنے پر غور فرمائیں ۔دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں کسی اور کا نام نہیں لیا کہ یہودیت کو توڑے گا ،ہندو دھرم کو توڑے گا ،مجوسیت کو توڑے گا۔یہ فرمانا کہ صلیب کو توڑے گا کیا بتاتا ہے۔ کہ صلیب کا زور ہوگا اس لئے اس کو توڑے گا۔اس پیشگوئی نے مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ دو باتوں کے درمیان باندھ کر رکھ دیا اس وقت تک سچا مسیح موعود آنہیں سکتا جب تک دنیا میں صلیب کا زور پیدا نہ ہو ۔اس وقت تک صلیب کا زور ٹوٹ نہیں سکتا جب تک مسیح موعود کا ظہور نہ ہو۔حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ نے دعویٰ فرمایا ۔پوری دنیا پر صلیب کی شوکت تھی صلیب کی چمکار تھی ۔آپ نے چومکھی لڑائی لڑی صلیبی مذہب کا زور توڑنے کے لئے ۔نتیجہ کیا نکلا۔1908ء میں آپ کی وفات ہوئی ۔1917ء میں آپ کی وفات کے صرف نویں سال صلیب کی تبلیغ کرنے والے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کے شہنشاہ نے اعلان کر دیا کہ آج کے بعد ہم عیسائی نہیں ہیں ۔اس وقت باقی دنیا ،وہ مغربی ممالک جو عیسائیت کے علمبردار تھے وہ انگلستان جس کا سربراہ اپنے آپ کو defender of faith عیسائیت کا محافظ سمجھتا تھا ۔ حضرت بانیٴ جماعت احمدیہ کے دلائل ،آپ کی کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا ۔وہ گرجے جو صلیب کی پوجا کے لئے تعمیر ہوتے تھے ۔وہ سینکڑوں کی تعداد میں بک گئے۔مغربی ممالک میں رہنے والے افراد، امریکہ ،کینیڈا میں رہنے والے افراد میرے اس بیان کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔سینکڑوں گرجے بک گئے اورسینکڑوں پر بورڈ لگ ہیں for sale کے۔ دوستو ! قوموں پر عروج وزوال کے زمانے آتے رہتے ہیں ۔آپ کبھی نہیں سنو گے کہ فلاں علاقے کے ہندوٴوں نے اپنا مندر بیچ دیا ۔فلاں علاقے کے زرتشتیوں نے اپنی عبادت گاہ بیچ دی ۔مسلمانوں نے اپنی مسجد بیچ دی ۔فلاں علاقہ کے یہود نے اپنی عبادت گاہ بیچ دی ۔جب بھی آپ کے کان میں آواز آئے گی تو یہی آئے گی کہ فلاں علاقوں کے عیسائیوں نے اپنا گرجا بیچ دیا ۔وہ بات جو کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ہوئی تھی آج حضرت رسول پاک ﷺکی پیشگوئی کے مطابق دنیا میں جگہ جگہ رونما ہوکر اس بات کا پیغام دے رہی ہے کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ گزر گیا۔
حضرت رسول پاک ﷺکی پیشگوئی صحیح مسلم کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال میں پائی جاتی ہے۔آپ فرماتے ہیں ۔جو مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہوگا یَبْعَثُ اللّٰہُ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو کھڑا کرے گا ۔وَھُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍٍ یَنْسِلُوْنَ (الانبیاء:97)اور وہ ہر اونچائی سے ہر پانی کی لہر سے تیزی کے ساتھ بھاگتے چلے آئیں گے۔بھئی یاجوج ماجوج جو مسیح موعود کے ظہور کے زمانے میں پوری دنیا پر تیزی کے ساتھ پھلانگتے چلے آئیں گے یہ ہیں کون؟قرآن پاک میں اس کا تذکرہ نہیں کہ وہ کہاں آباد ہیں حدیث میں بھی ذکر نہیں کہ وہ کہاں آباد ہیں ۔قرآن پاک نے یہ فرمایا اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوْجَ وَمَاجُوْجَ (الانبیاء:97)جب یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا ۔یہ نہیں فرمایا کہ پیدا کیا جائے گا ۔گویاقوم پیداشدہ موجود ہے ۔جب ہم اس امر کی تحقیق کے لئے دیکھتے ہیں تو انبیائے بنی اسرائیل کی کتابوں میں حضرت حزقیلؑ کے صحیفے میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ حزقیل کو خدا نے وحی کی ۔ اس وحی میں یہ بتایا کہ یاجوج کون ہے۔ایک جملہ ہے اس وحی ربانی کا ”اے جوج،روش اورمسک اور توبل کے فرماں رواں۔
صاحبو! اس فقرے پر غور فرمائیں ۔یاجوج کون ہے ۔روس رشیا اور ماسکو کے علاقے کی رہنے والی قوم ۔اگلے باب میں فرمایا اس نبی کو وحی ہوئی۔ اے ماجوج اے جزائر کی حکمرانی کرنے والو ۔یعنی جو سامنے جزائر ہیں یورپ کے ممالک ۔وہ ماجوج ہے ۔ لیجئے صاحب ! مسئلہ حل ہوگیا۔قرآن پاک نے ایک اور حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سورة الکھف میں۔ کہ وہ زمانہ کیسا ہوگا جب ہم یاجوج اور ماجوج کو کھول دیں گے اور وہ ہر طرف سے تیزی کے ساتھ بھاگتے چلے آئیں گے۔کیا مطلب ان کی رفتار جوترقی کی ہے وہ بھاگنے کی طرح ہو ۔جس طرح بلندی سے نیچے کی طرف کو ئی تیزی کے ساتھ بھاگتا ہے فرمایا وَتَرَکْنَا بَعْضَھُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِی بَعْضٍ۔(الکھف:100)اس وقت ہم یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کو اس حالت میں کر دیں گے۔وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں گے جس طرح دریا میں سمندر میں پانی کی لہریں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ہیں ۔دو باتیں بیان کی گئیں ۔ایک یہ بتایا کہ مسیح موعود کے ظہور کے زمانے میں یاجوج اور ماجوج یعنی رشیا اور یورپ کی اقوام جن کا پوری دنیا پر غلبہ ہوگا ان کی ترقی کی رفتار اس طرح ہوگی جس طرح بلندی سے نیچے کی طرف کوئی تیزی سے بھاگتا ہے اور دوسری اہم بات یہ بیان فرمائی کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ایسا ہوگا۔رشیا اور اقوام یورپ کا آپس میں مقابلہ ہوگا ،ٹکراو ٴ ہوگا ۔وہ زمانہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ ہوگا ۔صاحبو! ذرا اس حقیقت پہ نگاہ ڈالیں۔ رشیاکا اور اقوام مغرب کا مقابلہ جاری رہا ۔اب رشیا میدان سے ہٹ گیا ۔مقابلہ ختم ہوگیا ۔ اس مقابلے نے ختم ہوکر رشیا کے زوال نے اس بات کی گواہی دی کہ ظہور مسیح موعود کا زمانہ مدتوں ہوئی گزر چکا۔